دنیا کا ایک عجیب ترین تاریخی سمندر ۔ ۔ ۔ بحر مردار
سمندروں میں بحر مردار، جسے بحر میت بھی کہا جاتا ھے ، کی خاص اہمیت ہے۔
بہت سے وجوہات کی بنا پر یہ سمندر عام سمندروں سے مختلف ہے ، یہ سب سے چھوٹا سمندر ہے ، پچاس
میل لمبا اور گیارہ میل چوڑا ہے ، اس کی سطح کا کل رقبہ 351 مربع میل ہے ، زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو
فٹ ہے ، 1967 کی جنگ کے بعد اسرائیلی فوجیں پورے مغربی ساحل پر قابض ہوگئی ہیں ، اس کی جغرافیائی
خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی بھی بڑے سمندر سے متعلق نہیں ہے ، اپنے طول و عرض کے لحاظ سے اس کو
ایک جھیل کہنا زیادہ مناسب یے ، لیکن چونکہ اس کا پانی خالص سمندری پانی ہے ، بلکہ اس کی نمکیات اور
کیمیاوی اجزاء عام سمندروں سے زیادہ ہیں اس لئے اس کو بحر یا بحیرہ بھی کہا جاتا ہے ۔
اس سمندر کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ عام سطح سمندر سے تیرہ سو فٹ نیچے یے ، یہاں سے قریب
ترین سمندر بحر متوسط یا بحر روم کی خلیج عقبہ ہے ، لیکن بحر میت اس کی سطح سے 1300 سو فٹ نیچے
واقع ہے ، اس طرح یہ کرہ زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے ، دریائے اردن اسی سمندر میں آ کے گرتا ہے ، اور
آس پاس کی پہاڑی ندیاں بھی اسی میں آکر شامل ہوتی ہیں-
اس میں کوئی چیز نہیں ڈوبتی
اس جھیل نما سمندر کی ایک خصوصیت یہ ھے کہ اس میں کوئی چیز بھی ڈوبتی نہیں ھے۔ اس کی سطح پر آپ
لوگوں کو لیٹے اخبار پڑھتے ھوئے، آرام کرتے ھوئے بھی دیکھ سکتے ھہیں۔
اس کی سطح پر آپ واٹر چیئرزپڑھی ھوئی بھی دیکھ سکتے ھیں اور بہت سی ایسی چیزیں بھی دیکھ سکتے
ھیں جو کسی اور سمندر میں نہیں کی جاسکتی۔
اس میں کوئی چیز زندہ نہیں رہتی
اس سمندر کی ایک بہت بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کے اندر کوئی بھی چیز زندہ نہیں رہ سکتی ، یہاں تک کہ
مچھلی بھی زندگی نہیں رہ سکتی ، کوئی پیداوار یا پودا اس کے اندر نہیں پایا جاتا ، حد یہ ہے کہ جب دریائے
اردن یا دوسرے چشمے اس سمندر میں گرتے ہیں تو بعض اوقات اپنے ساتھ مچھلیاں بہا کر لے آتے ہیں ، لیکن
یہ مچھلیاں سمندر میں گرتے ہی فورا مر جاتی ہیں ، سائنسی طور پر اس کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ اس
سمندر کی غیر معمولی نمکیات کا اثر ہے ، عام سمندر کے مقابلہ اس میں نمکیات کا تناسب 23 فیصد سے 25
فیصد زائد ہے ، یہی وجہ ہے اگر کوئی اس کے اندر غسل کر لے تو اس کے بدن سے نمکینی جاتی ہیں نہیں ،
یہاں تک کہ وہ کئی دفعہ نہائے ۔
بحر میت
جہاں قوم لوط کو ان کی بد اعمالیوں کی سزا دی گئی تھی
کہتے ہیں کہ بحر میت ہی ہے جہاں قوم لوط کو ان کی بد اعمالیوں کی سزا دی گئی تھی ، بہت سے محققین کا
ماننا ہے کہ اس سمندر کا وجود ہی ان پر عذاب کی صورت میں آیا تھا ، تحقیق سے یہ بات بھی پائی گئی ہے کہ
اس کے قرب و جوار میں جب کھدائی کی گئی تو ایسی لاشیں اور پتھروں کا بنا ہوا مجسمہ دستیاب کیا گیا تھا جو
ان تحقیقات کی تائید کرتی ہیں ۔
اس کے نام بحر میت کی وجہ تسمیہ
اس سمندر کو دیکھ کر خدا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ، اس کا ہر پہلو اپنے آپ میں ایک خاص قدرتی معجزہ
لئے ہوا ہے ، بظاہر یہ سائنسی طور پر معمہ ہے ، لیکن اگر بغائر اور ایمانی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ
عبرتناک عذاب کے اثرات کا بھی حصہ ہوسکتا ہے ، جو حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر نازل ہوا ، جو ہمیشہ
ہمیش کیلئے نشان عبرت و موعظت بنا دیا گیا ہے ، یہاں تک اس کا نام ہی بحر میت پڑ گیا ہے ، یونانی دور سے
یہی نام چلا آرہا ہے ، جبکہ اہل عرب میں اس کو بحیرہ لوط بھی کہا جاتا ہے ، قرآن کریم نے اسی لئے کہہ دیا
تھا "وہ جعلنا عالیھا سافلھا" یعنی اس زمین کے بلند علاقے کو زمین کا پست علاقہ بنا دیا ۔
0 Comments